آج ہم حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ھیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے نظر آتی ھیں۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ھیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ھے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیزہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ھیں۔
بنی نوع آدم علیہ السلام کو حقیقت کی پاکیزہ راہ دکھانے میں جہاں مریم و آسیہ وہاجرہ و خدیجہ اور طیب وطاہر صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہم کی عظیم شخصیت اپنے مقدس کردار کی روشنی میں ہمیشہ جبین تاریخ کی زینت بن کر نمونہ عمل ھیں وہاں جناب زینب سلام اللہ بھی اپنے عظیم باپ کی زینت بن کر انقلاب کربلا کا پرچم اٹھائے ہوئے آواز حق و باطل سچ اور جھوٹ ایمان و کفر اور عدل وظلم کے درمیان حد فاصل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔
کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں انہیں سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے کربلا کی سرزمین پر کسب کمال میں وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔ امام کے الفاظ میں اس عالمۃ غیر معلمۃ اور فاہمۃ غیر مفہمہ نے اپنے بے مثل ہوش و ذکاوت سے کام لے کر، عصمتی ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور الہی علوم و معارف کے آفتاب و ماہتاب سے علم و معرفت کی کرنیں سمیٹ کر خود اخلاق و کمالات کی درخشاں شمع بن گئیں۔
جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھا ہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کررہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہو گئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کا پورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئےجاوداں بنا دیا۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتا ہے
اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیازہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے۔
جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحراء میں قتل کر کے حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرأت کی تھی سردربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کر کے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کر دیے۔
باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کردیا۔
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ میری پھوپھی (زینب سلام علیہا) عالمہ غیرمعلمہ ہیں اور ایسی دانا کہ آپ کو کسی نے پڑھایا نہیں ہے۔
زینب سلام علیہا کی حشمت و عظمت کے لئے یہی کافی تھا کہ انہیں خالق کائنات نے علم ودانش سے سرفراز فرمایا۔
جناب زینب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کی عظیم دولت و نعمت سے بھی بہر مند تھی زینب بنت علی تاریخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفریں کردار کا دوسرا نام ھے۔
زینب نے اپنے عظیم کردار سے آمریت کو بے نقاب کیا ظلم و استبداد کی قلعی کھول دی اور فانی دنیا پر قربان ہونے والوں کو آخرت کی ابدیت نواز حقیقت کا پاکیزہ چہرہ دیکھایا ، صبر و استقامت کا کوہ گراں بن کر علی علیہ السلام کی بیٹی نے ایسا کردار پیش کیا جس سے ارباب ظلم و جور کو شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا۔
جناب زینب کو علی و فاطمہ علیہما السلام کے معصوم کردار ورثے میں ملے اما م حسن علیہ السلام کا حسنِ تدبیر جہاں زینب کے احساس عظمت کی بنیاد بنا وہاں امام حسین علیہ السلام کا عزم واستقلال علی علیہ السلام کی بیٹی کے صبر و استقامت کی روح بن گیا ، تاریخ اسلام میں زینب(س) نے ایک منفرد مقام پایا اور ایساعظیم کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک دنیائے انسانیت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گیا۔
واقعہ کربلا میں آپ کے صبر اور شجاعانہ جہاد نے امام حسین علیہ السلام کے مقدس مشن کی تکمیل کو یقینی بنایا۔ آپ نے دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کا تحفظ وپاسداری میں اپنا کردار اس طرح ادا کیا کہ جناب زینب کا حال یہ تھا اسلام بچ جائے دین بچ جائے چاھے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔
گیارہ محرم سن 61ہجری کو اہل بیت(ع) کے اسیروں کا قافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا، اھل بیت(ع) کے امور کی باگ دوڑ امام زین العابدین(ع) کے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور آنحضرت کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری(س) ہیں، جو امام زین العابدین(ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں۔
راہ حق میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام(ع) کی بہن حضرت زینب کبری(ع) کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوہر پیش کئے جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنا ناممکن ہے۔
عصر عاشورا کو امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین(ع) کی بہنوں نے عباس(ع) کی طرح پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزاردی۔گیارہ محرم کی صبح اسیری کے پیغام کے ساتھ نمودار ہوئی لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آگیا۔عورتیں رسیوں میں جکڑدی گئیں اور سید سجاد(ع) کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں بے کجاوہ اونٹوں پر سوار ، عورتوں اور بچوں کو قتل گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔
لیکن اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں نہ گھبراہٹ ، نہ بے چینی ، نہ پچھتاوا نہ شکوہ۔ اعتماد و اطمینان سے سرشار نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے۔
تاریخ کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لے کر کیوں نکلے تھے ؟
اور جناب زینب(ع) کو کیوں بھائی کی ہمراہی پر اس قدر اصرار تھا ؟
اور ابن عباس کے منع کرنے پر کیوں امام حسین(ع) نے کہاتھا کہ " خدا ان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے۔"
اہل حرم کی اسیری ، کتاب کربلا کا ایک مستقل باب ہے اگر حسین(ع) عورتوں کو ساتھ نہ لاتے اور انہیں اسیروں کی طرح کوفہ و شام نہ لے جایا جاتا توبنی امیہ کے شاطر نمک خوار صحرائے کربلا میں پیش کی گئی خاندان رسول (ص) کی عظیم قربانیوں کو رایئگاں کردیتے۔
یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کےلئے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا تھا، اگر حسین(ع) کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب(ع) اور امام سجاد(ع) کی قیادت میں اسرائے کربلا نے خطبوں اورتقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سرزمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ حق کا خون رائگاں چلاجاتا۔
اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو کس طرح تہہ تیغ کردیا گیا۔
ان مظالم کو بیان کرکے جو یزید نے کربلاکے میدان میں اہل بیت رسول(ع) پر روا رکھے تھے؛ حضرت زینب(ع) نے لوگوں کو سچائی سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبہ کے سبب ایک انقلاب برپا ہوگیا جو بنی امیہ کی حکومت کے خاتمے کے ابتدا تھی۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کا ایک زرین قول ھے۔ آپ فرماتی ہیں
خداوند تعالی کو تم پر جو قوت و اقتدار حاصل ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو اور وہ تم سے کس قدر قریب ہے اس کو پیش نظر رکھ کر (گناہ کرنے سے ) شرم کرو۔