مسجد کے فضائل قرآن و روایات کی روشنی میں

مسجد کے فضائل قرآن و روایات کی روشنی میں

مسجد کے فضائل قرآن و روایات کی روشنی میں

  • تقریریں


مسجد، اسلام کی نظر میں اللہ تعالی کی عبادت کےلئے خاص جگہ ہے۔
مسجد کا تعارف

لفظ مسجد "س ج د" سے لیا گیا ہے جو اسم مکان کے طور پر استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی ہیں سجدہ یا عبادت کی جگہ۔ کہا گیا ہے کہ اس جگہ کو مسجد یعنی سجدہ کی جگہ اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ مسلمان، نماز میں سجدہ کرتے ہیں اور سجدہ عبادت میں خضوع کی انتہا ہے۔
ہوسکتا ہے مسجد عمارت ہو یا زمین ہو چاہے بڑی ہو یا چھوٹی اور سادہ سی، زمین کے اس حصہ کی دیوار ہو یا نہ ہو، قیمتی قالینیں اس میں بچھی ہوئی ہوں یا کم قیمت والی صفیں، اسکی چھت، گنبد اور منارے ہوں یا نہ ہوں۔
اسلامی شریعت میں، مسجد کے خاص احکام ہیں، مسجد سے عموماً اجتماعی عبادت اور گروپ کی صورت میں دینی سرگرمیوں کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے اور اہم ترین عبادت جو وہاں پر بجالائی جاتی ہے، نماز جماعت ہے۔ اس کے علاوہ مساجد، معاشرتی، سیاسی، تعلیماتی اور عدالتی لحاظ سے بھی مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوتی رہی ہیں جن میں سے بعض فائدے اب تک باقی ہیں، مساجد کا ایران میں، 1357 شمسی میں انقلاب اسلامی کی کامیابی میں اہم کردار رہا۔

مسجد، اسلامی نقطہ نظر سے
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق، اللہ تعالی کی عبادت اور نماز کا کسی خاص جگہ سے تعلق نہیں ہے، اسی لیے زمین کی کسی جگہ پر بھی اللہ تعالی کی عبادت کی جاسکتی ہے اور نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ جیسا آنحضرت کا ارشاد گرامی ہے: "جُعِلَت ليَ الأرضُ مَسجِداً و طَهوراً"[1]، "زمین میرے لئے سجدہ کی جگہ اور طہور قرار دی گئی ہے"۔ لہذا ہجرت سے پہلے نماز پڑھنے کے لئے مسلمانوں کی کوئی خاص جگہ نہیں تھی اور جہاں بھی ممکن ہوتا، نماز پڑھ لیتے تھے۔ مسجد قبا پہلی مسجد تھی جو اسلام میں بنائی گئی۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ایک ہفتہ قبا میں رہے اور اس عرصہ میں لوگوں کی پیشکش سے آنحضرت نے اس علاقہ میں ایک مسجد بنائی۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ مسجد عمار یاسر کی پیشکش سے بنائی گئی ہے۔[2]

مسجد قرآن کریم کی روشنی میں
لفظ مسجد قرآن کریم میں مفرد یا جمع کی صورت میں 28 بار ذکر ہوا ہے:
15 بار "الحرام" کے بعد، 5 بار "مسجد" کے عنوان سے، 1 بار "الاقصی" کے بعد، 1 بار لفظ "ضرار" کے ساتھ، 6 مقامات میں یہ لفظ، جمع "مساجد" کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔
لفظ "البیت" بہت سارے مقامات میں کعبہ یا مسجدالحرام کے معنی میں ہے۔ قرآن میں لفظ مسجد مختلف معانی کا حامل ہے۔
مثلاً قرآن کریم میں کبھی لفظ مساجد، بدن کی ان سات جگہوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھی جاتی ہیں۔ "وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَداً"[4]، "اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا"۔
جب سے مسجد کی اسلام میں بنیاد رکھی گئی، تب سے مسجد میں آنے جانے کے لئے کچھ احکام اور آداب، قرآن اور احادیث میں بیان ہوئے۔ مسجد کی طہارت اور صفائی پر تاکید کی گئی ہے، نیز نمازی آدمی اور اس کی چیزیں اور اس کے حالات کے متعلق خاص فقہی احکام قرار دیئے گئے ہیں۔ مثلاً مسجد میں جنابت کی حالت سے داخل ہونا حرام قرار دیا گیا ہے، سفید اور پاکیزہ کپڑے مسجد میں حاضر ہونے کے لئے مستحب ہیں اور مسجد میں آنے کے لئے سیاہ اور میلے کپڑے پہننا مکروہ ہیں۔
اسلامی ثقافت میں قرآن کریم اور روایات میں مسجد کا خاص احترام اور مقام ہے۔ قرآن کریم کی نظر میں مسجد کو قائم کرنا ہر آدمی کا کام نہیں بلکہ اس کے لئے کچھ شرطیں ہیں، ارشاد الہی ہے: "إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّکَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِکَ أَن يَکُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ"(5)، "اللہ کی مسجدوں کو صرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جن کا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور جنہوں نے نماز قائم کی ہے زکات ادا کی ہے اور سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرے یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں گے"۔
حضرت امام حسن مجتبی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جو انسان مسجد میں آنے جانے کو جاری رکھتا ہے تو اسے آٹھ میں سے ایک فائدہ پہنچے گا: "مَنِ اختَلَفَ إلى المَسجِدِ أصابَ إحدَى الثَّماني: أخا مُستَفادا في اللّه ِ ، أو عِلما مُستَطرَفا ، أو آيَةً مُحکَمَةً ، أو رَحمَةً مُنتَظَرَةً ، أو کَلِمَةً تَرُدُّهُ عن رَدىً ، أو يَسمَعُ کَلِمَةً تَدُلُّهُ على هُدىً ، أو يَترُکُ ذَنبا خَشيَةً أو حَياءً"(6)، "اللہ کی خاطر کسی بھائی کا مل جانا، یا کوئی نیا علم، یا کوئی محکم آیت، یا ایسی رحمت جس کا وہ منتظر تھا، یا ایسی بات جو اسے ہلاکت سے بچالے، یا ایسے جملہ کا سننا جو اسے ہدایت کی طرف راہنمائی کرے، یا کسی گناہ کو خوف یا حیا سے چھوڑ دے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں: "مَن مَشى إلى مَسجِدٍ يَطلُبُ فيهِ الجَماعَةَ کانَ لَهُ بکُلِّ خُطوَةٍ سَبعونَ ألفَ حَسَنةٍ، و يُرفَعُ لَهُ مِن الدَّرَجاتِ مِثلُ ذلکَ، و إن ماتَ و هُو على ذلکَ وکَّلَ اللّه ُ بهِ سَبعينَ ألفَ مَلَکٍ يَعُودُونَهُ في قَبرِهِ، و يُؤنِسُونَهُ في وَحدَتِهِ، و يَستَغفِرُونَ لَهُ حتّى يُبعَثَ"(7)‘، "جو شخص نماز جماعت کے لئے کسی مسجد میں جائے، ہر قدم اٹھانے کے بدلے اس کے لئے ستر ہزار نیکیاں ہیں اور اسی مقدار میں اس کے درجات بلند ہوجائیں گے اور  اگر اس حالت میں مرجائے تو اللہ ستر ہزار فرشتوں کو مقرر کرے گا کہ اس کی قبر میں اس کی عیادت کے لئے جائیں اور اس کی تنہائی میں اس سے انس پائیں اور اس کے محشور ہونے تک اس کے لئے استغفار کریں۔
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جناب ابوذر غفاری سے فرمایا: "يا أبا ذَرٍّ، إنّ اللّه َ تعالى يُعطِيکَ ما دُمتَ جالِسا في المَسجِدِ بِکُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ دَرَجةً في الجَنَّةِ ، و تُصَلِّي علَيکَ الملائکةُ ، و تُکتَبُ لَکَ بِکُلِّ نَفَسٍ تَنَفَّستَ فيهِ عَشرُ حَسَناتٍ ، و تُمحى عنکَ عَشرُ سَيّئاتٍ"(8)، "اے ابوذر! جب تک مسجد میں بیٹھے ہو یقیناً اللہ تعالی تمہارے ہر سانس لینے کے بدلے ایک درجہ تمہیں جنت میں دیتا ہے اور فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں اور مسجد میں تمہارے ہر سانس لینے کے بدلہ تمہارے لیے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور تم سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں"۔
اہل قبور مسجد  والے لوگوں پر غبطہ کھاتے
اہل قبور پر ایسا دن نہیں گزرتا مگر یہ کہ ایک ملا‏ئکہ انکو آواز دیتی ہے   کہ آپ لوگ کن لوگوں پر غبطہ کھاتے ہو اور کہتے ہو ای کاش ہمیں بھی یہ نصیب ہوتا؟ تو وہ لوگ کہتے ہے: کہ ہماری ارزو اور غبطہ مسجد  والے لوگوں پر ہے کہ وہ لوگ نماز پڑھتے ہے اور ہم نہیں پڑھ سکتے  اور وہ لوگ روزے رکھتے ہے اور ہم نہیں رکھ سکھتے۔۔۔
نتیجہ: قرآن و روایات کی روشنی میں مساجد کا خاص مقام ہے۔ اسلام میں کوئی جگہ مسجد کی عظمت اور بلندی کا ہم پلہ نہیں ہے، مسجد ساجد، ذاکر اور عارف لوگوں کا مرکز ہے۔ مسجد اسلامی تعلیمات کی اشاعت کی جگہ اور مومنین اور متقین کی تربیت و پرورش کی جگہ ہے۔ مسجد میں نماز جماعت کی خاص فضیلت ہے، لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ نماز جماعت مسجد میں پڑھیں، جہاں مسجدیں نہیں ہیں وہاں پر مسجدیں تعمیر کریں اور جہاں مسجد ہیں مگر آباد نہیں اور ان میں نماز قائم نہیں ہوتی، ان مساجد کو آباد کریں اور وہاں پر نماز قائم کریں تا کہ ہر روز کئی بار ہر شہر اور ہر گاوں میں کئی طرف سے، اللہ تعالی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت (علیہم السلام) کا نام اور ذکر گونج اٹھے، اور اس طرح سے اسلام زندہ و سربلند رہے اور آواز حق کو بلند کرنے والے رحمت الہی سے اپنے دامن کو بھرلیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[1]ميزان الحکمه ، ج12، 45۔
[2] آثار اسلامی مکه و مدینه، ص201۔
[3] نهضت امام خميني؛ سيد حميد روحاني؛ ج1؛ ص456۔
[4] سورہ جن، آیت 18۔
[5]سورہ توبه، آیت 18۔
[6]امالی شیخ صدوق، 474/637۔
[7]بحار الأنوار، 1/336/76۔
[8] بحار الأنوار، 3/85/77۔

Share:
Tags: